Orhan

Add To collaction

دل سنبھل جا ذرا

دل سنبھل جا ذرا 
از قلم خانزادی 
قسط نمبر12

حیدر بھی ماہم کے پیچھے اس کے کمرے میں چلا گیا۔۔ماہم پلیز چپ ہو جاو۔۔۔سنبھالو خود کو۔۔۔اگر ہم سب ہار مان گئے تو بھابی کو کون سنبھالے گا۔۔۔اور چچی جان ان کی حالت تو دیکھی ہے نا تم نے۔۔۔!!!!!!!
اور دادو۔۔۔پتہ نہی ان پر کیا بیتے گی جب ان کو پتہ چلے گا اس بارے میں۔۔۔حنان کو وہ ہم تینوں سے زیادہ پیار کرتی تھیں۔۔۔تم ایسا کرو دادو کے پاس چلی جاو۔۔۔۔!!!
اور دھیان رکھنا ان کو اس بارے میں کچھ نا پتہ چلے۔۔۔اچھا اب میں چلتا ہوں۔۔۔احسن بھائی وہاں اکیلے ہیں ہاسپٹل میں۔۔۔!!!!
ٹھیک ہے تم جاو دھیان سے اور مجھے منال کے بارے میں بتاتے رہنا۔۔۔جیسے ہی اس کو ہوش آئے مجھے بتا دینا۔۔۔میں دادو پاس جا رہی ہوں۔۔۔۔!!!!!!
حیدر ہاسپٹل کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔اور ماہم دادو کے پاس چلی گئی۔۔۔۔وہ دوائیوں کے زیرِاثر سو رہی تھیں۔۔۔ماہم وہی ان پاس لیٹ گئی۔۔۔۔!!!!
ہانی بھی اپنے کمرے میں روتے روتے سو چکی تھی۔۔۔اس نے تو اپنے مستقبل کے خواب سجا رکھے تھے حنان کے ساتھ۔۔۔لیکن یہ سب کیا ہو گیا۔۔۔۔۔ایسا تو اس نے کبھی سوچا بھی نہی تھا۔۔۔۔!!!!
حیدر ہاسپٹل پہنچا تو منال کی حالت ابھی بھی ویسی ہی تھی۔۔۔ابھی تک اسے ہوش نہی آیا تھا۔۔۔!!!!!!!
ملک صاحب کمرے میں ٹہلتے رہے ساری رات۔۔۔مسز ملک کو ماہم نے نیند کی گولی کھلا دی تھی حیدر کے کہنے پر۔۔۔تا کہ وہ سو جائیں۔۔اگر جاگتی رہتی تو سوچ سوچ کر طبیعت خراب ہی رہتی ان کی۔۔۔۔!!!!!!!!!
ملک صاحب پر سوچوں کا سمندر ٹوٹ چکا تھا۔۔۔کاش میں نے حنان کو بھیجا ہی نا ہوتا۔۔اس کی جگہ میں چلا جاتا تو آج میرا لختِ جگر میرا حنان زندہ ہوتا۔۔ان کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے۔۔۔۔!!!!!!!!!!!
ایک ہی تو بیٹا تھا ان کا۔۔۔ملک حنان جو ان کا غرور تھا۔۔۔تھوڑا لا پرواہ ضرور تھا لیکن کام کے معاملے میں اس نے اپنے باپ کا سر کبھی نہی جھکنے دیا۔۔۔۔!!!!!
وہ اس کے سامنے تو کبھی اس کی تعریف نہی کرتے تھے لیکن دوسروں کے سامنے فخر سے اپنے بیٹے کی تعریفیں کرتے۔۔۔ان کا ہر وقت کا ڈانٹنا ڈپٹنا تو بس اسے زمہ دار بنانے کے لیے تھا۔۔۔۔!!!!
ورنہ اندر سے تو آج بھی وہ حنان کو ایسے ہی پیار کرتے تھے جب وہ چھوٹا تھا۔۔۔سانیہ کے بعد 7 سال بعد اللہ نے ان کو پیارے سے بیٹے سے نوازا تھا۔۔۔۔!!!!!!!!
اور چھوٹا اور لاڈلہ ہونے کی وجہ سے ہی تو اس کی ہر ضد پوری کی جاتی تھی۔۔۔وقت گزرتا گیا دیکھتے دیکھتے حنان جوان ہو گیا۔۔۔سکول سے کالج اور پھر کالج سے یونیورسٹی۔۔۔حنان من موجی بنتا گیا۔!!!!!!!!!
اور یہی بات ملک صاحب کو پریشان کرنے لگ پڑی۔۔۔اسی لیے انہوں نے حنان کے ساتھ سختی والا رویہ اپنا لیا۔۔۔اور آہستہ آہستہ حنان ان سے دور ہوتا چلا گیا۔۔۔۔وہ تو جو کچھ کہتے تھے اس کی بھلائی کے لیے ہی کہتے تھے۔۔۔۔!!!!!
مگر ان سب کے باوجود بھی حنان نے خود کو بدلہ۔۔پچھلے پانچ ماہ سے اس نے ملک صاحب کے ساتھ آفس جوائن کیا ہوا تھا۔۔۔وہ اپنا ہر کام زمہ داری سے کرتا تھا۔۔۔!!!!!
ملک صاحب چاہتے تھے کہ اب وہ سارا بزنس حنان کے حوالے کر کے خود گھر بیٹھ جائیں۔۔۔ وہ تھک چکے تھے اب زمہ داریاں نبھاتے نبھاتے۔۔۔کچھ سانیہ نے انہیں توڑ کر رکھ دیا تھا۔۔۔۔!!!!
اسی لیے وہ اب سب کچھ حنان کے حوالے کرنا چاہتے تھے۔۔۔۔آج ان کو حنان کے ساتھ کیے اپنے سارے روئیے یاد آ رہے تھے باری باری۔۔۔!!!!!
وہ اندر سے تو جیسے مر ہی گئے تھے جوان بیٹے کی موت کی خبر سن کر بس یہ خالی جسم کا بوجھ تھا جو وہ اٹھائے پھر رہے تھے۔۔۔!!!!!!
شاید میں نے وقت سے پہلے کچھ زیادہ ہی بوجھ ڈال دیا تھا اپنے بیٹے کے کندھوں پر۔۔۔جو وہ اٹھا نہی پایا اور مجھ سے دور چلا گیا۔۔۔۔!!!!!
یہ کیسی لکھی تھی جدائی قسمت میں۔۔۔
یوں بچھڑ جائیں گے سوچا بھی نہی تھا۔۔۔
یوں سفر میں تنہا کر جاو گے سوچا نہ تھا۔۔۔
کیسے جئیے گے بن تیرے۔۔۔۔
کاش اے صنم جانے سے پہلے دیکھ لیتا تو مڑ کے 
منال ابھی تک یونہی پڑی تھی۔۔۔دنیا سے بے خبر۔۔۔حنان نے اسے خود اپنی زندگی میں شامل کیا تھا۔۔۔لیکن اب حنان اس کی زندگی بن چکا تھا۔۔۔پلین کریش ہونے کی خبر اس کے حواسوں پر قیامت بن کر ٹوٹی۔۔۔۔!!!!!
صدمہ ہی اتنا بڑا تھا کہ وہ برداشت نہی کر پائی۔۔۔اور اب زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی ہے۔۔۔۔!!!!!!!!!!
حیدر بھی ساری رات بے چین سا کبھی ادھر تو کبھی ادھر چکر لگاتا رہا کہ شاید کوئی خبر آئے۔۔۔لیکن کچھ خبر نہی آ سکی۔۔۔۔!!!!
رات اسی طرح بیت گئی۔۔۔صبح ہو گئی لیکن منال کو ابھی تک ہوش نہی آیا تھا۔۔۔!!!!
احسن کو تو عادت تھی ہاسپٹل میں جاگنے کی۔۔۔منال کی وجہ سے اس نے اپنی نائٹ ڈیوٹی لگوا لی تا کہ آئی سی یو میں رک سکے۔۔۔!!!
لیکن حیدر کو عادت نہی تھی ایسے ماحول کی۔۔ساری رات جاگنے کی وجہ سے اس کی طبیعت بہت بوجھل لگ رہی تھی۔۔۔!!!!!
احسن اس کے پاس جا بیٹھا۔۔۔حیدر جاو ناشتہ کر لو باہر سے کچھ منگوا دوں یا پھر گھر سے جا کر کر آو ناشتہ۔۔!!!!
اور کچھ دیر آرام کر لو۔۔۔پوری رات نہی سوئے تم۔۔۔کہا تھا میں نے تمہیں کمرے میں جا کر سو جاو لیکن تم نے سنا ہی نہی۔۔۔!!!!!
بلکہ تم ایسا کرو گھر ہی جاو۔۔۔تمہیں آرام کی ضرورت ہے۔۔اب میں تمہاری ایک نہی سنوں گا جاو شاباش۔۔۔!!!
حیدر کو نا چاہتے ہوئے بھی احسن کی بات ماننی پڑی۔۔گھر جا کر وہ ناشتہ کر کے کچھ دیر آرام کرنے اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔۔!!!
ابھی کمرے میں گیا ہی تھا کہ ہانی دروازہ ناک کرتے ہوئےکمرے میں داخل ہوئی۔۔۔۔!!!!!
کیسی طبیعت ہے اب منال کی اسے ہوش آیا ہے یا نہی۔۔۔ہانی کمرے میں داخل ہوتے ہی بولی۔۔۔۔!!!!!!!!!!!
نہی ابھی ہوش نہی آیا بھابی کو۔۔۔۔ویسے کی ویسی ہی ہیں۔۔۔۔۔!!!!!
مجھے بھی جانا ہے ہاسپٹل۔۔۔کیا تم مجھے لے جاو گے جاتے ہوئے۔۔۔۔!!!!
نہی میں نہی لے کہ جا سکتا تم خود چلی جانا جاو اب یہاں سے میں پہلے ہی بہت پریشان ہوں مجھے تنگ مت کرو۔۔۔۔!!!!
ہانی ایک غصیلی نظر حیدر پر ڈالتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئی۔۔۔۔!!!!
حیدر دوبارہ ہاسپٹل چلا گیا دوپہر کو مسز ملک اور ملک صاحب پہلے ہی ہاسپٹل پہنچ چکے تھے۔۔۔پورا دن یونہی ان کا ہاسپٹل میں گزر گیا۔۔۔۔۔!!!!!!!!!!!!!!!!!!
حیدر بار بار اپنا فون چیک کرتا کہ شاید کوئی کال آ جائے ہاسپٹل سے۔۔۔لیکن ابھی تک ان کی کوئی کال نہی آئی۔۔۔!!!!
آخر کار شام کو منال کو حوش آ ہی گیا۔۔نرس ان کے پاس آئی۔۔۔آپ کی پیشنٹ کو ہوش آ گیا ہے۔حنان کون ہے۔۔؟؟؟ 
پیشنٹ بار بار حنان کا نام لے رہی ہیں۔۔۔آپ ان کو اندر بھیج دیں۔۔۔!!!!
وہ تو یہاں نہی ہیں۔۔۔حیدر نے جواب دیا۔۔۔!!!!!
تو آپ لوگ ان کو بلا لیں یہاں کہی ایسا نا ہو کہ ان کی طبیعت پھر سے خراب ہو جائے۔۔۔۔ابھی ہم ان کو روم میں شفٹ کرنے لگے ہیں پھر آپ لوگ مل سکتے ہیں ان سے۔۔۔!!!!!
اب وہ کیا بتاتا نرس کو۔۔۔۔کہاں سے لاتا حنان کو۔۔۔وہ تو اب اس دنیا میں ہی نہی ہے۔۔۔حیدر سوچوں کے سمندر میں ڈوبتا چلا گیا۔۔۔۔!!!!
منال کو کمرے میں شفٹ کیا تو مسز ملک سب سے پہلے اس کے پاس گئی۔۔۔!!!!
منال بس چپ چاپ لیٹی دیواروں کو گھور رہی تھی۔۔۔مسز ملک کمرے میں گئیں تو منال نے اٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کی لیکن اٹھ نہی سکی۔۔۔!!!!!!!!!!!!
کل اس نےدوپہر کا کھانا ہی تو کھایا تھا اس کے بعد سے وہ بے ہوش تھی۔۔۔مسز ملک نے اسے بیٹھنے میں مدد کی اور خود منال کے پاس جا کر بیٹھ گئیں۔۔۔!!!!!!!
کیسی طبیعت ہے اب میری بیٹی کی منال کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بولیں۔۔!!!!!!!!!!!!
ممی حنان کہاں ہیں۔۔۔۔وہ نہی آئے۔۔۔منال ان کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی۔۔۔مسز ملک کی آنکھیں بھیگ گئیں۔۔۔۔منال جس پلین میں حنان تھا۔۔وہ پلین کریش ہو گیا۔۔۔۔!!!!
کوئی نہی بچا۔۔۔وہ روتے ہوئے بولیں۔۔۔۔اس کے آگے وہ کچھ نہی بول سکیں۔۔۔!!!!!
نہی ممی ایسا نہی ہو سکتا حنان دو دن کے لیے گئے ہیں دبئی۔۔۔وہ کل تک آ جائیں گے۔۔۔مجھ سے وعدہ کیا تھا حنان نے وہ کل آ جائیں گے۔۔۔منال کے چہرے پر غم کا کوئی تاثر نہی تھا اور نا ہی خوشی کا۔۔۔۔!!!!!!
ممی آپ کیوں رو رہی ہیں۔۔۔یہ سب جھوٹ ہے حنان کو کچھ نہی ہوا۔۔۔وہ کل تک واپس آ جائیں گے۔۔۔۔منال مسز ملک کے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی۔۔۔۔!!!!!!!
مسز ملک کو منال کی دماغی حالت پر شک ہوا۔۔۔وہ اس سچ کو قبول نہی کر پا رہی تھی۔۔۔ان کی منال کی حالت پر بہت دکھ ہوا۔۔۔۔!!!!!
منال یہی سچ ہے۔۔تم سمجھ کیوں نہی رہی تم وہ منال کو جھنجوڑتے ہوئے بولیں۔۔۔۔حنان نہی رہا یہی سچ ہے۔۔۔تمہیں اس سچائی کو ماننا ہی پڑے گا۔۔۔۔!!!!!!!
ائِیرپورٹ والوں نے اس بات کی تصدیق کر دی گئی ہے۔۔۔کہ حنان اسی پلین میں تھا جو کریش ہوا تھا۔۔۔!!!!!
انہوں نے منال کو گلے سے لگا لیا اور منال میرا بیٹا نہی رہا۔۔۔منال کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔۔۔وہ مسز ملک کے گلے لگ کر بہت دیر تک روتی رہی۔۔۔!!!!
مگر اس کا دل اس سچائی کو ماننے کو تیار نہی تھا۔کچھ دیر رونے کے بعد مسز ملک نے اسے خود سے الگ کرتے ہوئے اس کے آنسو صاف کیے۔۔۔چپ ہو جاو منال صبر کرو۔۔۔!!!
اللہ کی یہی مرضی تھی۔۔۔یہ جان تو اللہ کی امانت ہے کوئی جلدی چلا جاتا ہے کوئی دیر سے۔۔۔میں اپنے بیٹے کو توکھو چکی ہوں۔۔اب تمہیں نہی کھونا چاہتی سنبھالو خود کو۔۔۔۔!!!!
اگر تم ایسا کرو گی تو ہمیں کون سنبھالے گا۔۔۔جتنا نقصان تمہارا ہوا ہے۔۔اتنا ہی ہمارا بھی ہوا ہے۔۔ہم سب کو ایک دوسرے کا سہارا بننا ہو گا۔۔۔!!!!!!!!!!!!!!!!
احسن کمرے میں داخل ہوا۔۔۔چچی جان اب ہم منال کو گھر لے جا سکتے ہیں۔۔۔۔منال سنبھالو خود کو بہت ہمت سے کام لینا پڑے گا تمہیں۔۔۔جو ہوا اسے تو ہم بدل نہی سکتے۔۔لیکن تمہارے دکھ میں ہم برابر کے شریک ہیں۔۔۔۔!!!!!
اب چلو گھر جانا ہے ہمیں حیدر اور چاچو جی گاڑی میں انتظار کر رہے ہیں۔۔۔چلیں۔۔۔۔منال چپ چاپ ان کے ساتھ چل پڑی۔۔مسز ملک اس کو سہارا دیتے ہوئے گاڑی تک لے گئیں۔۔۔۔۔!!!!!
گھر پہنچی تو منال کو مسز ملک اس کے کمرے میں لےگئیں۔۔۔ماہم منال کے لیے کھانا لے کر آئی تو مسز ملک نے زبردستی اسے کھانا کھلا کر دوائی کھلا کر سلا کر کمرے سے باہر نکل گئیں۔۔۔!!!!!
احسن کے کہنے پر منال کو نیند کی گولی کھلا دی مسز ملک نے تا کہ وہ ریلیکس ہو کر سو سکے ورنہ وہ ساری رات جاگتے ہوئے گزار دیتی۔۔۔۔!!!!!
رات کے نو بجے حیدر کو کال آئی کہ ہاسپٹل آ کر اپنی لاش کی شناخت کر لیں۔۔۔۔کال سنتے ہی حیدر کے ہاتھ پاوں پھول گئے۔۔اس کو اپنے حواس گم ہوتے محسوس ہوئے۔۔۔۔!!!!
خود کو سنبھالتے ہوئے احسن کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔بھائی ہمیں ہاسپٹل جانا پڑے گا۔۔۔لاش کی شناخت کے لیے۔۔۔۔بہت مشکل سے حیدر یہ بول سکا۔۔۔۔!!!!
ہاں چلتے ہیں۔۔۔چاچو کو بھی ساتھ لے چلتے ہیں۔۔۔ان کا ساتھ ہونا بھی ضروری ہے۔۔۔تم گاڑی میں بیٹھو میں ان کو ساتھ لے کر آتا ہوں۔۔۔!!!!
تینوں ہاسپٹل کی طرف بڑھ گئے۔۔۔ہاسپٹل پہنچ کر ان کو مردہ خانے لے جایا گیا۔۔۔۔تین لاشیں تھیں۔۔جو پوری طرح جل چکی تھیں۔۔۔!!!!
انہوں نے باری باری تینوں لاشوں پر سے کپڑا ہٹا کر دیکھا۔۔۔ان میں سے کوئی بھی حنان نہی تھا۔۔اور نہ ہی لاشوں کے پاس سے ملا سامان میں سے کوئی بھی چیز حنان کی تھی۔۔۔۔!!!!
وہ لوگ وہاں سے باہر آ گئے۔۔۔اگر ہمیں کوئی انفارمیشن ملی تو ہم آپ کو بتا دیں گے۔۔ابھی لاشوں کی تلاش جاری ہے۔۔۔!!!!!
بہت سی لاشیں ابھی تک نہی ملیں۔۔۔۔ڈاکٹر نے ان کو کہا تو وہ لوگ واپس گھر آ گئے۔۔۔اور اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔۔۔۔!!!!!!
منال کی رات کے آخری پہر آنکھ کھلی تو اسے اپنے ساتھ کسی کے ہونے کا احساس ہوا۔۔۔منال نے اٹھنے کی کوشش کی تو اسے کھینچ کر واپس لٹا دیا گیا اور منال کے سر کے نیچے اپنا بازو رکھتے ہوئے اسے خود کے قریب کر لیا۔۔۔۔!!!!
حنان۔۔۔۔بے ساختہ منال کے لبوں سے حنان کا نام نکلا۔۔۔۔!!!!
جِی مسز حنان۔۔۔۔۔حنان کی آواز منال کے کانوں میں پڑی۔۔۔۔!!!
منال کو لگا شاید اس نے غلط سنا۔۔۔اسے لگا وہ نیند میں ہے اور خواب دیکھ رہی ہے۔۔۔منال نے جلدی سے سائیڈ لیمپ آن کیا۔۔۔حنان لیٹا مسکرا رہا تھا۔۔۔۔!!!!!!!!!
منال نے آگے بڑھ کر اس کے چہرے کو اپنے ہاتھ سے چھوا جیسے یقین کرنا چاہ رہی ہو کہ حنان سچ میں یہاں ہے۔۔یا پھر وہ خواب دیکھ رہی ہے۔۔۔۔!!!!!!!!!
منال نے حنان کو چہرے کو چھوا تو حنان نے اس کا ہاتھ تھام کر اپنے ہونٹوں سے لگا کر اپنے ہونے کا احساس دلایا۔۔۔۔!!!!!!!
منال خواب کی سی کیفیت میں بیٹھی حنان کو دیکھ رہی تھی۔۔حنان نے اس کے ہاتھ کو چھوا تو اس نے رونا شروع کر دیا۔۔۔۔!!!!!
حنان جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔۔۔منال کیا ہوا کیوں رو رہی ہو۔۔۔حنان نے آگے بڑھ کر اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔۔۔منال چپ ہو جاو پلیز۔۔۔!!!!!
کام جلدی ختم ہو گیا تھا تو میں نے رات کی ٹکٹ بک کروا لی تھی یار میں صبح تک انتظار نہی کر سکتا تھا۔۔۔!!!!
میں کب سے تمہیں اٹھانے کی کوشش کر رہا تھا۔۔لیکن تم گہری نیند سو رہی تھی۔۔۔۔!!!!!
اسی لیے میں نے تمہیں زیادہ ڈسٹرب نہی کیا۔۔۔کیونکہ مجھے پتہ ہے تمہاری نیند بہت پکی ہے۔۔۔جلدی کام ختم ہوا تو میں نے سوچا تمہیں سرپرائزڈ کر دو ابھی جا کر۔۔۔۔!!!!!
لیکن تم ہو کہ خوش ہونے کی بجائے روئے جا رہی ہو۔۔۔اگر میرا آنا اچھا نہی لگا تو واپس چلا جاوں۔۔صبح آ جاوں گا۔۔۔حنان مسکراتے ہوئے شرارت سے بولا۔۔۔۔!!!!
منال نے سر اوپر اٹھایا اور پیچھے ہٹ کر ایک تھپڑ حنان کو لگایا۔۔اب آپ کہی نہی جائیں گے۔۔۔!!!!
دوبارہ کہی جانے کی بات کی تو میں خود کو ختم کر لوں گی۔۔۔اب دوبارہ کبھی میں آپ کو خود سے دور نہی جانے دوں گی۔۔۔سمجھے آپ۔۔۔۔!!!!
حنان اپنے گال پر ہاتھ رکھے سچوایشن کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔وہ سمجھ نہی پا رہا تھا منال کو ہوا کیا ہے۔۔۔۔!!!!
منال مسلسل روئے جا رہی تھی۔۔۔حنان نے منال کا چہرہ اپنی طرف کیا۔۔منال ادھر دیکھو میری طرف۔۔۔کیا ہوا ہے۔۔۔۔!!!!!!!
مزاق میں کہ دیا میں نے ایسا یار کیا ہو گیا۔۔۔اتنا کیوں ناراض ہو گئی ہو۔۔۔!!!!!!!!!!!!!
کوئِی غلطی ہو گئی کیا مجھ سے۔۔۔آئی ایم سوری۔۔۔آئیندہ ایسا نہی کہوں گا۔۔۔منال حنان کے سینے پر سر رکھ کر رو دی۔۔۔کیا بتاوں آپ کو ہم پر کیا قیامت بن کر گزری ہے۔۔۔۔!!!!!
آپ کہاں تھے حنان۔۔۔؟؟؟ میں تو ڈر ہی گئی تھی۔۔۔سب کہ رہے تھے کہ آپ نہی رہے۔۔۔اب کبھی واپس نہی آئیں گے آپ۔۔۔کہاں چلے گئے تھے آپ۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟
کیا کہ رہی ہو منال مجھے کچھ سمجھ نہی آ رہی کس نے کہ دیا کہ میں واپس نہی آوں گا۔۔۔۔کیسی باتیں کر رہی ہو یار۔۔۔!!!!!
حنان نے اٹھ کر کمرے کی لائٹ آن کی وہ اب سچ میں پریشان ہو چکا تھا منال کی باتوں سے۔۔۔۔۔!!!!!!!!!!
منال ادھر دیکھو میری طرف کیا ہو گیا ہے یار میں بتا کر تو گیا تھا کہ دو دن کے لیے آفس کے کام کے لیے دبئی جا رہا ہوں۔۔۔یہ کیا باتیں کر رہی ہو تم مجھے کچھ سمجھ نہی آ رہی۔۔۔۔!!!!!
تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا منال۔۔۔ہوا کیا ہے آخر۔۔۔پلیز رونا بند کرو اور مجھے بتاو کیا ہوا ہے۔۔۔کوئی برا خواب دیکھا ہے کیا۔۔۔حنان منال کے آنسو صاف کرتے ہوئے بولا۔۔۔۔!!!!
نہی۔۔۔منال نے سر نا میں ہلا دیا۔۔۔میں نے کوئی خواب نہی دیکھا حنان۔۔۔کل جب آپ گھر سے گئے۔۔۔اس کے بعد میں حیدر کے ساتھ ہاسپٹل سے واپس آئی تو میں نے ٹی وی پر دیکھا کہ۔۔۔۔۔!!!!!!
منال پھر سے رونا شروع ہو گئی۔۔۔پھر کیا ہوا منال کیا دیکھا تم نے ٹی وی پر۔۔۔پلیز چپ ہو کر بتاو مجھے۔۔۔!!!!!!!
یہ دیکھو تمہارے پاس ہی ہوں میں۔۔۔کہیں نہی جا رہا میں اب۔۔۔۔حنان منال کے آنسو صاف کرتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔۔!!!!!!
میں نے ٹی وی پر دیکھا خبر چل رہی تھی کہ کچھ دیر پہلے دبئی جانے والی فلائٹ کریش ہو گئی ہے۔۔۔!!!!!!
کسی مسافر کے بچنے کی کوئی امید نہی ہے۔۔۔بس یہ دیکھنے کہ بعد مجھے سب سے پہلا خیال آپ کا آیا۔۔۔۔!!!!
اور اس کے بعد میری سوچنے سمجھنے کی ساری صلاحیتیں مفلوج ہو گئیں۔۔۔اس کے بعد مجھے کچھ یاد نہی۔۔۔میں کہاں ہوں۔۔۔کہاں نہی۔۔۔۔!!!!!
جب ہوش آئی تو خود کو ہوسپٹل میں دیکھا۔۔۔وہی باتیں زہن پر سوار تھیں۔۔۔!!!!!!
ممی نے آ کر مجھے بتایا کہ ائیرپورٹ والوں نے یہ تصدیق کر دی ہے کہ آپ اسی پلین میں تھے جو کریش ہوا ہے۔۔۔۔!!!!!!
مگر میرا دل یہ ماننے کو تیار نہی تھا۔۔۔میں نے ممی سے بہت کہا ممی یہ سچ نہی ہے۔۔۔۔آپ واپس آ جائیں گے۔۔۔لیکن ممی میری بات نہی مانیں وہ بہت رو رہی تھیں۔۔۔۔!!!!!
پھر ہم لوگ گھر آ گئے مجھے ممی نے اور ماہم نے زبردستی کھانا کھلایا۔۔۔دوائی کھلائی اس کے بعد میری آنکھ لگ گئی۔۔۔اور مجھے کچھ یاد نہی۔۔۔!!!!!!!!!
جب میری آنکھ کھلی تو آپ کے حصار میں خود کو پایا۔۔۔۔۔!!!!!!
حنان سوچ بھی نہی سکتا تھا کہ یہ ایک دن اور ایک رات اس کے گھر والوں پر ایسے قیامت بن کر گزرے گی اور منال ہوسپٹل میں تھی اور اسے پتہ ہی نہی تھا۔۔۔۔!!!!
حنان نے آگے بڑھ کر منال کو اپنے ساتھ لگا لیا۔۔۔اور اس کے درد کو محسوس کرنے کی کوشش کرنے لگ پڑا۔۔۔!!!!!!!
منال میں تمہارے پاس ہوں۔۔مجھے کچھ نہی ہوا۔۔۔اب کبھی تم سے اتنا دور نہی جاوں گا یہ وعدہ ہے میرا ملک حنان کا اپنی مسز حنان سے۔۔۔!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
ریلیکس ہو جاو اب یہاں بیٹھو میں پانی لے کر آتا ہوں۔۔۔حنان منال کو خود سے الگ کرتے ہوئے پانی گلاس میں ڈالتے ہوئے منال کی طرف بڑھا۔۔منال نے تھوڑا سا پانی پیا تو حنان نے گلاس سائیڈ پر رکھ دیا۔۔۔۔!!!!!!!
اتنا سب کچھ ہو گیا اور مجھے کسی نے بتایا تک نہی۔۔۔میرا فون گھر رہ گیا تھا۔جب گھر آیا تو فون آف تھا تو سٹڈی میں چارچنگ پر لگا دیا۔۔اور جاتے ہوئے وہیں بھول گیا۔۔۔اسی لیے کانٹیکٹ نہی کر سکا میں۔۔۔۔۔!!!!
ڈیڈ کمپنی والوں سے تو رابطہ کر سکتے تھے۔۔۔میں اتنا بزی تھا کہ مجھے ٹائم ہی نہی ملا کال کرنے کا۔۔۔اور مجھے کسی کا نمبر بھی تو یاد نہی تھا۔۔۔کبھی ایسی سیچوایشن ہی نہی آئی کہ میرا فون میرے پاس نا ہو۔۔۔۔۔!!!!!
سب بہت پریشان تھے۔۔۔ایسے میں کسی کو کچھ یاد نہی رہتا۔۔۔سب غم سے نڈھال تھے۔۔۔ایسا کسی نے نہی سوچا تھا کہ اچانک ایسی صورتِحال بن جائے گی۔۔۔۔اسی لیے بابا کو یاد نہی رہا ہو گا۔۔۔۔۔!!!!!!!
لیکن آپ اگر اسی پلین میں تھے تو پھر آپ کیسے بچ گئے حنان۔۔۔۔یاد آنے پر منال جلدی سے بول پڑی۔۔۔!!!!!!
ہاں ایکچولی اس دن ہوا یہ تھا کہ جس پلین میں میری بکنگ ہوئی تھی۔۔۔وہ سیٹ ان کو ایمرجنسی کسی کو دینی پڑ گئی۔۔۔اور مجھے ایک گھنٹے بعد کی فلائٹ میں بٹھا دیا گیا۔۔۔!!!!
پہلے میں نے سوچا کہ گھر سے جا کر فون لے آتا ہوں۔۔۔پھر سوچا کہ کہی یہ فلائٹ بھی مس نا ہو جائے۔۔اگلی فلائٹ کل صبح کی تھی اسی لیے ایک گھنٹہ انتظار کے بعد والی فلائٹ میں مجھے جانا پڑا۔۔۔۔!!!!!
تو جس فلائٹ میں میری بکنگ تھی۔۔۔جو ایک گھنٹہ پہلے روانہ ہوئی تھی وہ پلین کریش ہوا تھا۔۔۔اوہ مائی گاڈ۔۔۔۔سو سیڈ۔۔۔!!!!!
بس اللہ نے میری جان بچا لی ورنہ میں بھی۔۔۔اس سے پہلے کہ حنان کچھ کہتا منال نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔۔۔اللہ نا کرے آپ کو کچھ ہو۔۔۔آئیندہ ایسی بات کبھی منہ سے نا نکالنا آپ۔۔۔!!!!
حنان نے مسکراتے ہوئے منال کا ہاتھ اپنے ہونٹوں سے لگا لیا۔۔۔اور اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔۔۔اتنا پیار کرتی ہو مجھ سے۔۔۔۔میں نے اتنے زیادہ ظلم کیے تم پر پھر بھی۔۔۔۔؟؟؟
آپ نے مجھ پر کوئی ظلم نہی کیا۔۔۔وہ تو آپ کا پیار تھا۔۔۔اور اللہ نے ہمارا ملنا ایسے ہی لکھا تھا۔۔۔یہ ہمارے بس میں نہی ہے اللہ کی مرضی ہے جسے چاہے اسی سے ملا دے۔۔۔!!!!
ایسا ہماری قسمت میں لکھا تھا۔۔۔یہ پیار ہے یا کچھ اور یہ میں نہی جانتی۔۔۔مجھے بس اتنا پتہ ہے میں اپنے شوہر ملک حنان کے بغیر جینے کا تصور نہی کر سکتی۔۔۔!!!!!!
میں آپ کے ساتھ جینا چاہتی ہوں۔۔۔اور مرنا آپ سے پہلے چاہتی ہوں۔۔۔آپ کو کھونا میں برداشت نہی کر سکتی اسی لیے آپ سے پہلے مرنا چاہتی ہوں۔۔۔۔!!!!
حنان نے اسے خود میں بھینچ لیا۔۔لیکن میں ملک حنان جینا بھی تمہارے ساتھ چاہتا ہوں۔۔۔اور مرنا بھی۔۔۔میرے لیے بھی تمہارے بغیر جینا ایسے ہے جیسے مچھلی بن پانی کے۔۔۔۔!!!!!
آج دونوں اپنی اپنی محبت کا اعتراف کر چکے تھے۔۔۔یہ دوری ان کے لیے ایک دوسرے کی اہمیت واضح کر گئی تھی۔۔۔!!!!!
دونوں ایک دوسرے کو محسوس کر رہے تھے اور یہ لمحے ان کی زندگی کے سب سے قیمتی لمحے محسوس ہو رہے تھے ان دونوں کو۔۔۔۔!!!!!
آپ ٹھیک ہے یہ جان کر سب کو بہت خوشی ہو گی۔۔آپ ٹھیک ہیں ہمیں اور کچھ نہی چاہیے۔۔۔منال حنان سے الگ ہوتے ہوئی بولی۔۔۔آپ جا کر سب سے مل لیں پلیز۔۔۔۔!!!!!!
ہمممم کیوں نہی مسز حنان آو ساتھ چلتے ہیں۔۔۔حنان اس کا بازو تھامتے ہوئے باہر کی طرف بڑھ گیا۔۔فجر کی اذان ہو رہی تھی۔۔۔!!!!!
سب سے پہلے حنان اپنی مام کے کمرے کی طرف بڑھا۔۔۔دروازہ کھولا تو ملک صاحب سامنے صوفے پر بیٹھے تسبیح پڑھ رہے تھے۔۔پہلے منال کمرے میں داخل ہوئی۔۔۔!!!!
بابا آپ کی دعائیں قبول ہو گئیں۔۔۔حنان واپس آ گئے۔۔۔حنان کمرے میں داخل ہوا تو ملک صاحب کو لگا جیسے ان کی آنکھوں نے دھوکا کھایا ہے۔۔۔وہ تیزی سے حنان کی طرف بڑھے۔۔۔۔!!!!!
اس کے چہرے کو چھوا تو اس کے زندہ ہونے کا ثبوت ملا ان کو۔۔۔وہ حنان کا ماتھا چومتے ہوئے اسے سینے سے لگائے رو دئیے۔۔۔حنان میرا بچہ۔۔۔تم ٹھیک ہو۔۔۔مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہی آ رہا۔۔۔۔!!!!!!!!!!!!!
وہ بار بار حنان ماتھا چومتے اور پھر اسے سینے سے لگا لیتے۔۔۔حنان نے اپنے ڈیڈ کا یہ روپ بچپن کے بعد آج پہلی بار دیکھا تھا۔۔۔اس کی آنکھوں سے بھی آنسو نکل پڑے۔۔۔۔!!!!!!
ڈیڈ میں بلکل ٹھیک ہوں۔۔۔حنان ان کو خود سے الگ کرتے ہوئے ان کی آنکھوں سے آنسو صاف کرتے ہوئے بولا۔۔۔۔آپ بیٹھیں یہاں۔۔۔۔منال پانی لاو ڈیڈ کے لیے۔۔۔منال پانی لے کر آئی تو اس نے اپنے ہاتھوں سے ان کو پانی پلایا۔۔۔۔!!!!!
وہ نہی جانتا تھا وہ اس سے اتنی محبت کرتے ہیں۔۔۔وہ تو بس ہر وقت ان کے غصے کو ہی زہن میں رکھتا تھا۔۔۔ڈیڈ سے ملک صاحب پر آ گیا تھا وہ۔۔آج اسے احساس ہوا تھا کہ وہ کتنا غلط تھا۔۔۔۔!!!!!!!!!!!!!!!
وہ اسے ڈانٹتے تو تھے لیکن اندر سے اتنا ہی پیار کرتے تھے آج بھی جتنا بچپن میں کرتے تھے۔۔۔۔ابھی وہ ان کو پانی پلا کر گلاس منال کو پکڑا کر ہٹا ہی تھا کہ سامنے واش روم سے باہر آتی مام کی اس پر نظر پڑی۔۔۔۔!!!!!
وہ گرنے ہی والی تھیں اگر دیوار کا سہارا نہ لیتی تو۔۔۔حنان جلدی سے ان کی طرف بڑھا۔۔۔۔اور انہیں گلے سے لگا لیا۔۔۔مام میں بلکل ٹھیک ہوں۔۔۔کچھ نہی ہوا مجھے۔۔۔!!!!!
۔یہ دیکھیں میری طرف۔۔۔مسز ملک بیٹے کا لمس محسوس کر کے خود میں سکون اترتا محسوس کرنے لگ پڑیں۔۔۔ان کی آنکھیں بھیگ آئیں۔۔۔میرا بیٹا۔۔میرا حنان۔۔۔وہ حنان کو چومتے ہوئے سینے سے لگا گئیں۔۔۔۔!!!!!
حنان نے ان کو لا کر صوفے پر بٹھا دیا۔۔۔وہ حنان کو خود سے الگ نہی کر رہیں تھیں۔۔۔ڈر رہیں تھیں کہ کہیں پھر سے نا جدا ہو جائیں۔۔۔۔!!!!!
مام ڈیڈ۔۔۔میں بلکل ٹھیک ہوں۔۔۔حنان باری باری دونوں کے ہاتھ چومتے ہوئے آنکھوں سے لگاتے ہوئے بولا۔۔۔۔!!!!!
آئی ایم سوری۔۔میری ایک چھوٹی سی غلطی کی وجہ سے آپ سب کو اتنی تکلیفوں سے گزرنا پڑا۔۔۔۔!!!!!
حنان نے ان کو ساری بات بتا دی۔۔۔۔میں تو بہت گناہگار ہوں۔۔۔پتہ نہی اللہ کو میری کونسی بات پسند آ گئی جو اللہ نے میرا اتنا بڑا نقصان ہونے سے بچا لیا۔۔۔یا اللہ تیرا شکر ہے۔۔۔تو نے میرے بیٹے کو نئی زندگی عطا کی ہے۔۔۔۔!!!!!
مسز ملک روتے ہوئے بولیں۔۔۔۔میں نماز پڑھ لوں پھر آتی ہوں۔۔۔اس نعمت کا جتنا شکر ادا کروں اتنا کم ہے۔۔۔۔۔!!!!!!!!
میں باقی سب سے مل لوں ڈیڈ پھر آتا ہوں کہتے ہوئے حنان منال کو لے کر کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔۔!!!!!!
یہ کیا حنان آپ باقی سب سے تو مل لیں۔۔۔منال کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولی۔۔۔۔!!!!!
یارررر اچھا لگتا سب کے کمروں میں اس ٹائم جانا۔۔۔میرے پاس ایک آئیڈیا ہے۔۔۔حنان سٹڈی روم سے اپنا فون لایا۔۔۔اور حیدر کا نمبر ڈائل کیا۔۔۔!!!!
حیدر نیند میں تھا جب اس کی آنکھ فون کی مسلسل بجتی بیل پر کھلی۔۔۔سکرین پر حنان کا نام دیکھ کر اس کے تو جیسے ہوش اڑ گئے۔۔۔وہ اپنے کمرے سے نکل کر نیچے کی طرچ بھاگا۔۔۔۔۔!!!!!!!!!!!!!!!
ماما۔۔۔بابا۔۔۔چھوٹی ماما۔۔۔چاچو۔۔۔ماہم۔۔۔احسن بھائی۔۔۔بھابی۔۔۔وہ سب کے نام پکارتے ہوئے چلاتے ہوئے نیچے پہنچا۔۔۔سب اپنے اپنے کمروں سے نکل کر نیچے کی طرف بھاگے۔۔۔۔!!!!!
یا اللہ خیر۔۔۔حیدر کی ماما دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے کمرے سے باہر نکلیں۔۔۔کیا ہوا حیدر کیوں چلا رہے ہو۔۔۔اس کے بابا بولے۔۔۔۔۔!!!!
ڈیڈ حنان کا فون آ رہا تھا۔۔۔۔یہ دیکھیں احسن بھائی۔۔فون آ رہا ہے۔۔۔حیدر نے جلدی سے کال پک کر لی۔۔۔حیدر اس کے کانوں میں حنان کی آواز پڑی۔۔۔۔لیکن یہ آواز اسے فون سے نہی آئی تھی۔۔۔۔!!!!!!!!!!!!!!!
حیدر کی نظر جب سامنے پڑی تو۔۔۔حنان سیڑھیوں سے نیچے اتر رہا تھا۔۔سب کے چہرے کھلے کے کھلے رہ گئے۔۔۔حنان کو دیکھ کر۔۔۔۔اور حیدر کے ہاتھ سے فون نیچے گر گیا۔۔۔!!!!!
وہ تیزی سے بھاگتے ہوئے حنان کے گلے لگ گیا۔۔۔حنان نے بھی اس خود میں بھینچ لیا۔۔۔۔حیدر رو رہا تھا۔۔۔حنان نے اسے خود سے الگ کرنا چاہا لیکن وہ اسے چھوڑ ہی نہی رہا تھا۔۔۔!!!!!
احسن نے بڑھ کر اسے حنان سے الگ کیا اور خود بھی حنان کے گلے لگ گیا۔۔۔تمہیں دیکھ کر بہت خوشی ہوئی حنان۔۔۔احسن گلے لگتے ہوئے بولا۔۔۔۔!!!!!!!!
مجھے بھی آپ سب کا اپنے لیے پیار دیکھ کر بہت خوشی ہوئی احسن بھائی۔۔۔آج پہلی بار حنان نے احسن کو دل سے بھائی کہا تھا۔۔۔اسے اپنی غلطیوں پر بہت پچھتاوا ہوا۔۔۔۔!!!!
احسن حنان سے الگ ہوا تو حیدر پھر سے اس کے گلے لگ گیا۔۔۔۔آئی لو یو حنان۔۔۔روتے ہوئے بولا۔۔۔۔آئی لو یو ٹو بڈی۔۔۔حنان اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا۔۔۔۔!!!!!
ارے بس کرو بھئی ہمیں بھی ملنے دو۔۔۔بڑے ملک صاحب بولے تو حیدر اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے پیچھا ہٹا۔۔۔اور حنان تایا ابو سے لپک گیا۔۔۔۔میرا شہزادہ اللہ تمہیں سلامت رکھے۔۔۔!!!!
پھر حنان بڑی ماما کے گلے لگ گیا۔۔۔وہ بھی حنان کو گلے لگا کر رو دیں۔۔۔اللہ میرے بیٹے کو سدا سلامت رکھے۔۔۔۔آمین۔۔۔۔۔۔۔!!!!!
ہانی اور ماہم بھی دور کھڑیں رو رہی تھیں۔۔۔میں ٹھیک ہوں یار تم دونوں رونا بند کرو۔۔نہی تو میک اپ خراب ہو جائے گا۔۔۔حنان بولا تو دونوں ہنس دیں۔۔۔۔!!!!!!
آئی ایم سوری میری ایک چھوٹی سی غلطی کی وجہ سے آپ سب کو اتنی زیادہ تکلیف پہنچی۔۔۔۔حنان نے ان کو ساری بات بتا دی۔۔۔۔سب نے خدا کا شکر ادا کیا۔۔۔!!!!
اچھا اب میں جا رہا ہوں اپنے کمرے میں بہت تھکا ہوا ہوں۔۔۔آپ لوگ بھی آرام کریں۔۔۔کہ کر مسکراتے ہوئے حنان اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔!!!!!!!!!!!!!!!!

   1
0 Comments